اُداسی اتنی کہ در کاٹنے کو آتا ہے – اشفاق احمد اشفاق کی غزل

غزل

 

اُداسی اتنی کہ در کاٹنے کو آتا ہے

ہر ایک شخص ہی پر کاٹنے کو آتا ہے

 

نہیں ہے کوئی بھی پُرسان حال تیرے بعد

جدائیوں کا اثر کاٹنے کو آتا ہے

 

چہار سُو ہے مرے آگ ہجر کی پھیلی

مرے وجود کا ڈر کاٹنے کو آتا ہے

 

یہ کائنات تو ہے قاتلوں کا گھر گویا

ہر ایک شخص ہی سر کاٹنے کو آتا ہے

 

کنار آب ہے بیٹھا ہوا ترا اشفاق

ہر اک کنارا مگر کاٹنے کو آتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے