ایک یاد کی یاد میں- مقصودوفا کی نظم

ایک یاد کی یاد میں

سب یادیں ہیں!
روزی کے چکر میں سڑکیں ماپتے
فارغ دن ہوں،
جین کی خالی جیب میں ماچس ہو
یا ہاتھوں میں آخری سگریٹ کی پونجی ہو…

سب یادیں ہیں!

روشنیوں میں ناچتی ای میلیں ہوں
یا بوسیدہ خط کی باس…
راز کے کھلنے کی لذت میں کھویا بچپن ہو
یا مسز قریشی کے چہرے پر آمادہ مسکان…

سب یادیں ہیں!

سب یادیں ہیں ان عمروں کی
جن کو جینے کی حسرت میں
عمر گزرتی جاتی ہے

 

بشکریہ ماہنامہ ‘سمبل’ سالنامہ 2009

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے